Thursday, 20 August 2015

ملک اسحاق کی ہلاکت

سلامُ علیکم کچھ روز قبل میں نے ملک اسحاق کی ہلاکت کے حوالے سے ایک مضمون لکھا جو فیس بک پر ایک امیج کی صورت میں پوسٹ کیا گیا لیکن بہت سے احباب چونکہ موبائل پر فیس بک استعمال کرتے ہیں اس لئےان دوستوں کے اصرار پر اس تحریر کو دوبارہ فیس بک پر پوسٹ کر رہا ہوں تمام احباب سے التماس ہے کہ اسے ضرور پڑھیں
محترم قارئین کچھ روز قبل ایک پولیس مقابلہ میں ملک اسحاق چند دہشت گردوں کے ہمراہ مظفر گڑھ کے علاقہ میں ہلاک ہوا اور اس کے بعد پاکستانی میڈیا پر بیشتر افراد اس کو ہیرو اور بہادر ثابت کرنے کے لئے ایڑٰی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مذکورہ دہشت گرد پر نہ صرف اہل تشیع کو قتل کرنے بلکہ سری لنکن ٹیم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ اور بیشترتخریبی کاروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی تھا
بظاہر تو وہ کافی عرصہ جیل میں بند رہا لیکن اس کے باوجود اپنے گروہ کی سرپرستی کرتا رہا یہ وہ شخص ہے جو سرعام معصوم لوگوں کے قتل کا اعلان کرتا رہا لیکن پاکستان کی معزز عدالتوں کو کبھی اس کے جرم نظر نہیں آئے کہ وہ کیسے جیل کے اندر ہونے کے باوجود اپنی تخریبی کاروائیاں جاری رکھے رہا
پاکستانی میڈیا اور بیشتر صحافی افراد اس تمام دہشت گردی کو انقلاب ایران سے جوڑنے کا کوشش کر کے ملک اسحاق کو مظلوم اور بہادر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ جب بھی کوئی واقعہ اس قسم کا ہوتا ہےتو یہ لوگ اس کو انقلاب ایران یا ایران سعودی پراکسی وار کا نام دے دیتے ہیں میں ان اندھے افراد سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب پاکستان کی موجودہ صورتحال سے انقلاب ایران کا کوئی تعلق نہیں کیوں کہ شروع سے لے کر آج تک کوئی بھی ثابت کر دے کہ پاکستان میں ہونے والی کسی چھوٹی سے چھوٹی دہشت گردی میں کوئی ایک بھی شیعہ فرد ملوث پایا گیا ہو اور دہشت گردی کے تمام واقعات میں سے زیادہ تر اہل تشیع مساجد، امام بارگاہوں، جلوسوں اور زائرین کی بسوں پر ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی تمام واقعات مثلا آرمی پبلک سکول کا واقعہ ہو، کسی مندر پر چرچ پر یا کسی بھی بازار میں کوئی خود کش حملہ ہو تو اس میں ایک ہی گروپ کے افراد ملوث نظر آتے ہیں بلکہ بیشتر کا تو کسی نہ کسی مدرسے سے تعلق بھی ثابت ہو جاتا ہے پھر کس طرح بے شرمی اور ڈھٹائی سے دہشت گردوں کے حامی جو اپنے آپ کو صحافی سمجھتے ہیں (اور ایک پنجابی کہاوت کے مطابق وہ لوگ جن کو گھر والے کوئی ضروری بات کرنے سے پہلے باہر نکال دیتے ہیں) میڈیا پر آ کر دہشت گردی کو فرقہ واریت کا نام دے دیتے ہیں اگر فرقہ واریت ہو تو دونوں طرف سے اس طرح کی کاروائیاں ہو نا لیکن اب عوام باشعور ہیں پاکستان کےشعیہ سنی افراد یہ بات جان چکےہیں کہ دشمن کا مقصد صرف وطن عزیز کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اس لئے میڈیا پر آ کے دہشت گردوں کی وکالت کرنے سے نہ تو کوئی ان کو بہادر ثابت کر سکتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی کو فرقہ واریت کا نام دے سکتے ہیں اور جہاں تک بات ہے کسی کی بہادری یا دہشت کی تو میں ایک بات دنیا پر واضع کر دوں کہ کوئی اپنی گلی میں شیر بنتا رہے اس کے شیر بننے سے شیعہ قوم کو کوئی فرق نہیں پرٹا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت کردی کے 10 واقعات میں سے 9 واقعات ملت تشیع کے خلاف ہی ہوتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسی مسجد ہو جہاں کوئی نا کوئی کاروائی نہ ہوئی ہو لیکن اس سب کے باوجود کہیں بھی عزادری میں ایک زرا سی بھی کمی نہیں ہوئی جس جگہ عزاداری ، جلوس یا نماز کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اگلی دفعہ اسی جگہ پہلے سے کہیں زیادہ عزادری وہاں کی جاتی ہے اور جہاں تک بات ہے شہادتوں پر خاموش رہنے کی تو ملت تشیع صرف قانون کے احترام کی خاطر خاموش ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ دشمن صرف فرقہ واریت کو فروغ دینا چاہتا ہے لیکن میڈیا پر آ کر دہشت گردوں کے حامی ملت تشیع کی خاموشی کو دہشت گردوں کا ڈر کہہ کر ان کو بہادر اور پتا نہیں کیا کیا کہتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ صرف چھپ کر وار کرنا جانتے ہیں اور بوقت ضرورت فرار بلکہ بعض دفعہ تو برقعہ پہن کر بھی فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے ہیں اس لئے پاکستان کے عوام، میڈیا مالکان اور ہمارے حساس اداروں کی بھی زمہ داری ہے کہ دہشت گردوں کے حامی افراد جو صحافت کا لبادہ اوڑھ کر اور آزادی صحافت کا نعرہ لگا کر دہشت گردوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کی مخالفت بھی کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے کام کو بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں
محمد باقر مرتضی کاظمی
ایڈمن

No comments:

Post a Comment