Thursday, 1 October 2015

عید غدیر


۱۰ ھجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کے اعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ،قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ( ۱) سے تین میل کے فاصلے پر رابغ [2] نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا <یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس> [3] اے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛ اللہ آپ کو لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔
آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئ ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے ،جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوںکی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟
لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ ﷺ نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :

حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ۔ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس ا للہ کی پناہ چاہتے ہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے۔ اور جس نے بھی گمراہی کی طرف راہنمائ کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔
اس کے بعد آپنے فرمایا کہ میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تمھارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کو پوراکیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بند اور رسول ہے؟اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔
ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی ناکرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی ﷼ سے سب لوگوں سے متعرف کرایا ۔
اس کے بعد فرمایا: ” کون ہے جومومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف
ر کھتا ہے ؟ “
سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوںاور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔ “
ہاں اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “
جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ، [4] اے اللہ تو اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں [5]
اوپر لکھے خطبہ [6] کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیلیںموجو د ہیں (ہم جلد ہی اس قول کی وضاحت کریںگے )
حدیث غدیر کی جاودانی :

اللہ کا حکیمانہ اردہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ہر زمانہ میں باقی رہے اورلوگوںکے دل اس کی طرف جذب ہوتے رہیں۔اسلامی قلمکار ہر زمانے میں تفسیر ،حدیث،کلام اور تاریخ کی کتابوںمیں اسکے بارے میں لکھتے رہیں اور مذہبی خطیب، اس کو واعظ و نصیحت کی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کی صورت میں بیان کر تے رہیں۔
اور فقط خطیب ہی نہیں بلکہ شعراء حضرات بھی اپنے ادبی ذوق ،تخیل اور اخلاص کے ذریعہ اس واقعہ کی عظمت کو چار چاند لگائیں اور مختلف زبانوں میں مختلف انداز سے بہترین اشعار کہہ کر اپنی یادگار چھوڑیں (مرحوم علامہ امینیۺ نے مختلف صدیوں میں غدیر کے سلسلہ میں کہے گئے اہم اشعار کو شاعر کی زندگی کے حالات کے ساتھ معروفترین اسلامی منابع سے نقل کرکے اپنی کتاب الغدیر میں جو کہ گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے ،بیان کیا ہے ۔)
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بہت کم ایسے تاریخی واقعات ہیں جو غدیر کی طرح محدثوں، مفسروں، متکلموں، فلسفیوں، خطیبوں، شاعروں، مؤرخوں اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں ۔
اس حدیث کے جاودانی ہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں [7] لہٰذا جب تک قرآن باقی رہے گا یہ تاریخی واقعہ بھی زندہ رہے گا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارویں ذی الحجة الحرام مسلمانوں کے درمیان روز عید غدیر کے نام سے مشہور تھی یہاں تک کہ ابن خلکان، المستعلی بن المستنصرکے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷ ئھ میں عید غدیر خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذی الحجة الحرام ہے ،لوگوں نے اس کی بیعت کی [8] اور المستنصر باللہ کے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷ ئھ میں جب ذی الحجہ ماہ کی آخری بارہ راتیں باقی رہ گئیںتو وہ اس دنیا سے گیا اور جس رات میں وہ دنیا سے گیا ماہ ذی الحجہ کی اٹھارویں شب تھی جو کہ شب عید غدیر ہے۔ [9]
دلچسپ یہ ہے کہ ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ میں عید غدیر کو ان عیدوں میں شما رکیا ہے جن میں تمام مسلمان خوشیاں مناتے تھے اور اہتمام کرتے تھے [10] صرف ابن خلقان اور ابوریحان بیرونی نے ہی اس دن کو عید کا دن نہیں کہا ہے، بلکہ اہل سنت کے مشہور معروف عالم ثعلبی نے بھی شب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشہور شبوں میں شمار کیا ہے [11]
اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہیرکھی جا چکی تھی، کیونکہ آپ نے اس دن تمام مہاجر ،انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاؤاور امامت و ولایت کے سلسلہ میں ان کو مبارکباد دو ۔
زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ ابوبکر ،عمر،عثمان،طلحہ وزبیر مہاجرین میں سے وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد دی۔ بیعت اور مبارکبادی کیا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا [12]
۱۱۰ راویان حدیث :

اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔ [13]
البتہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف انھیں اصحاب نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انھیں ایک سو دس افراد کا ذکر ملتا ہے ۔
دوسر صدی ، جس کو تابعان کا دور کہا گیا ہے اس میں ۸۹/ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔
بعد کی صدیوںمیں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اورعلماء اہل سنت کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند اور صحت کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔
اس گروہ نے صرف اس حدیث کو بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑپ مورخ طبری نے ” الولایت فی طرقِ حدیث الغدیر“ نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طریقوں سے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ۔
ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو ۱۰۵ افرادسے نقل کیا ہے ۔
ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے نام سے مشہور ہے انھوں نے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے بیان کیا ہے ۔
اہل سنت کے مشہورعلماء اور حدیث غدیر :

احمد بن حنبل شیبانی ،ابن حجر عسقلانی،جزری شافعی،ابوسعید سجستانی،امیر محمد یمنی،نسائی،ابو الاعلاء ہمدانی اور ابو العرفان حبان نے اس حدیث کو بہت سی سندوں [14] کے ساتھ نقل کیا ہے۔
شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ کے بارے میں بہت سی اہم کتابیں لکھیں ہیں اور اہل سنت کی مشہور کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں سے جامع ترین کتاب ” الغدیر“ ہے ،جو عالم اسلام کے مشہورمؤلف مرحوم علامہ امینیۺ کے قلم کا شاہکار ہے۔ (اس کتابچہ کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیاگیا ہے (.
بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپناجانشین بنانے کے بعد فرمایا:” اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے <الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً> [15] آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کوبھی تمام کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ۔
اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی اور فرمایا :” اللہ کاشکرادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سے خوشنود ہوا ۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایاکہ:” جاؤ خیمے میں جاکر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں آپ کی بیعت کرتے ہوئے مبارکباد پیش کریں۔
سب سے پہلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا ۔
حسان بن ثابت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کہہ کر اس کوپڑھا ،یہاں پر اس قصیدے کے صرف دواہم اشعا ر بیان کررہے ہیں :
فقال لہ قم یا علی فاننی
فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً
فمن کنت مولاہ فہٰذا ولیہ
فکونو لہ اتباع صدق موالیا
یعنی علی علیہ السلام سے فرمایا :” اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راہنمائی کے لئے منتخب کرلیا ۔ “
جس جس کا میںمولا ہوں اس اس کے علیمولا ہیں۔
تم ،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو ،بس ان کی پیروی کرو۔ [16]
یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پرفضیلت اور برتری کے لئے سب سے بڑی دلیل ہے ۔
یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں (جو کہ دوسرے خلیفہ کے مرنے کے بعد منعقد ہوئی) [17] اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں اور اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج کیا ۔ [18]
اس کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جیسی عظیم شخصیت نے بھی حضرت علی علیہ السلام کی والا مقامی سے انکار کرنے والوںکے سامنے، اسی حدیث سے استدلال کیا ۔ [19]
مولیٰ سے کیا مراد ہے ؟

یہاں پر سب سے اہم مسئلہ مولیٰ کے معنی کی تفسیر ہے جو کہ وضاحت میں عدم توجہ اور لاپرواہی کا نشانہ بنی ہوئہے ۔کیونکہ اس حدیث کے بارے میں جو کچھ بیان کیاگیا ہے اس سے اس حدیث کی سندکے قطعی ہونے میں کوئی شک و تردید باقی نہیںرہ جاتی، لہٰذا بہانہ تراشنے والے افراد اس حدیث کے معنی و مفہوم میں شک و تردید پیدا کرنے میں لگ گئے، خاص طور پر لفظ مولیٰ کے معنی میں ،مگر اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکے ۔
صراحت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ مولیٰ اس حدیث میں بلکہ اکثر مقامات پر ایک سے زیادہ معنی نہیں دیتا اور وہ ”اولویت اور شائستگی “ہے دوسرے الفاظ میں مولیٰ کے معنی ” سرپرستی “ ہے قرآن میں بہت سی آیات میں لفظ مولیٰ سرپرستی اور اولیٰ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
قرآن کریم میں لفظ مولیٰ ۱۸ آیات میں استعمال ہوا ہے جن میں سے دس مقامات پر یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ظاہر ہے کہ اللہ کی مولائیت اس کی سرپرستی اور اولویت کے معنی میں ہے ۔لفظ مولیٰ بہت کم مقامات پر دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس بنیادپر مولیٰ کے معنی میں درجہٴ اول میں اولیٰ، ہونے میںکوئی شک و تردید نہیں کرنی چاہئے ۔حدیث غدیر میںبھی لفظ مولا اولویت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کے ساتھ بہت سے ایسے قرائن و شواہد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہاں پر مولا سے مراد اولویت اور سرپرستی ہی ہے ۔
اس دعوے کے دلائل :

فرض کروکہ لفظ مولیٰ کے لغت میں بہت سے معنی ہیں ،لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعہ وحدیث غدیر کے بارے میں بہت سے ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جو ہر طرح کے شک و شبہات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں ۔
دلیل اول :

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا ۔اس فصیح و بلیغ وارعربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وہادی کو استعمال کیا اور کہا :
فقال لہ قم یا علی فاننی
فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً [20]
یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : اے علی ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وہادی کی شکل میں منتخب کرلیا ہے ۔
اس شعر سے ظاہر ہے کہ شاعر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال کردہ لفظ مولا کوامامت، پیشوای ،ہدایت اور امت کی رہبر کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے ۔ اور یہ شاعر عرب کے فصیح و اہل لغت افرادمیں شمار ہوتا ہے ۔اورصرف عرب کے اس عظیم شاعر حسان نے ہی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نہیں کیاہے، بلکہ اس کے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے جو عرب کے مشہور شعراء وادباء تھے اور عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے، انھوں نے بھی اس لفظ مولا سے وہی معنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت ۔
دوسری دلیل :

حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کے بارے میں یہ فرمایاکہ
واوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم [21]
یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیرکے دن میری ولایت کو تمھارے اوپر واجب قراردیا ۔
امام سے بہتر کون شخص ہے، جو ہمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے ؟اوربتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمال کیاہے ؟کیا یہ تفسیر یہ نہیں بتا رہی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمام افراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرامعنی نہیں سمجھا ؟
تیسری دلیل :

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ ․․․ “ کہنے سے پہلے یہ سوال کیا کہ ”الست اولیٰ بکم من انفسکم؟“ کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ہوں ؟پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰ بنفس کا استعمال ہوا ہے۔ پہلے سب لوگوںسے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اس کے بعد بلافصل ارشاد فرمایا:” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ “ یعنی جس جس کا میںمولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں۔ ان دو جملوں کوملانے کا ہدف کیا ہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی ہدف ہو سکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے، وہی علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام امام؛نتیجہ میں حدیث غدیر کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے ۔ [22]
اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ہدف ہوتا، تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرارلینے کی ضرورت نہیں تھی ۔یہ انصاف سے کتنی دور ہوئ بات ہے کہ انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیغام کو نظرانداکردے اور تمام قرائن کی روشنی میں آنکھیں بند کرکے گذرجائے۔
چوتھی دلیل :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول کا اقرارکرایا اور فرمایا ”الست تشہدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ ورسو لہ وان الجنة حق والنار حق ؟ یعنی کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے عبد ورسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟یہ سب اقرارکرانے سے کیا ہدف تھا ؟کیااس کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاہتے تھے، اس کے لئے لوگوں کے ذہن کو آمادہ کر رہے تھے ، تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ولایت و خلافت کا اقرار دین کے ان تین اصول کی مانندہے، جن کے سب معتقد ہیں ؟اگرمولاسے دوست یامددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ہو جائے گا اور کلام کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟
پانچویں دلیل :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے کے شروع میں، اپنی رحلت کے بارے میں فرمایا کہ :” انی اوشک ان ادعیٰ فاجیب“یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کہوں [23] یہ جملہ اس بات کا عکاس ہے کہ پیغمبر اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کرنا چاہتے ہیں، تاکہ رحلت کے بعد پیدا ہونے والا خلا پر ہو سکے، اور جس سے یہ خلا پر ہو سکتا ہے وہ ایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے ۔اس کے علاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نہیں آتی ۔
جب بھی ہم ولایت کی تفسیر خلافت کے علاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملوںمیں پایا جانے والا منطقی ربط ختم جائے گا، جبکہ وہ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں۔ مسئلہ ولایت کے لئے اس سے زیادہ روشن اور کیا ہو قرینہ ہو سکتا ہے۔
چھٹی دلیل :

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ ․․․ “ جملے کے بعد فرمایا کہ
:” اللہ اکبر علیٰ اکمال الدین واتمام النعمت ورضی ربی برسالتی والولایت لعلی من بعدی“ اگر مولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد
ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی ،مودت ومدد سے دین کس طرح کامل ہوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ہوگئیں ؟سب سے روشن یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی ﷼ کی ولایت سے راضی ہو گیا [24] کیایہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نہیں ہے؟
ساتویں دلیل :

اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ شیخین(ابوبکر و عمر) و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا ۔شخین وہ پہلے افراد تھے جنھوںنے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی ”ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولیٰ کل مومن ومؤمنة“ [25] یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔
علی علیہ السلام نے اس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا کہ اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے ؟کیامقام خلافت ،زعامت اور امت کی رہبری ،کہ جس کا اس دن تک رسمی طور پر اعلان نہیں ہوا تھا، اس مبارکبادی کی وجہ نہیں تھی؟محبت و دوستی تو کوئی نئی بات نہیں تھی ۔
آٹھویں دلیل :

اگر اس سے حضرت علی علیہ السلام کی دوستی مراد تھی تو اس کے لئے تویہ ضروری
نہیں تھا کہ جھلسا دینے والی گرمی میں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل قافلہ کو روکا جاتا اور تیز دھوپ میں چٹیل میدان کے تپتے ہوئے پتھروں پرلوگوں کو بیٹھا کرمفصل خطبہ بیان کیاجاتا ۔
کیا قرآن نے تمام مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی نہیں کہا ہے؟جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے <انما المومنون اخوة> [26] مومنین آپس میںایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مومنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں نہیں پہچنوایا ہے؟ اور علی علیہ السلام بھی اسی مومن سماج کی ایک فرد تھے، لہٰذا کیا ان کی دوستی کے اعلان کی الگ سے کیا ضرورت تھی؟اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ہی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان سب انتظامات کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا۔ یقینا کوئ بہت اہم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے ان استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی ،کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہ کبھی پہلے دیکھے گئے اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد نظر آئے ۔
اب آپ فیصلہ کریں :

اگر، ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد امامت و خلافت نہیں تھا تو کیا یہ تعجب والی بات نہیں ہے ؟وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کریںگے اور روز محشر اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟یقینا اگر تمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو حقیقی و صحیح نتیجوں پر پہونچیں گے اور یہ کام مسلمانوںکے مختلف فرقوں میں آپسی اتحاد میں اضافہ کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی سماج ایک نئی شکل اختیارکر لیگا۔
تین پر معنی حدیثیں :

اس مقالہ کے آخر میں تین پر معنی حدیثوں پر بھی توجہ فرمائیں۔
الف: حق کس کے ساتھ ہے؟

زوجات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ام سلمیٰ اور عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ”علی مع الحق و الحق مع علی یفترقا حتی یردا علی الحوض “
علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی ﷼ کے ساتھ ہے ،اور یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہونچ جائیں۔
یہ حدیث اہل سنت کی بہت سی مشہور کتابوں میںموجود ہے۔ علامہ امینیۺ نے ان کتابوں کا ذکر ا لغدیر کی تیسری جلد میں کیا ہے [27]
اہل سنت کے مشہور مفسر قران، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ حمد کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ
” حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔اور یہ بات تواتر
سے ثابت ہے کہ جو دین میں علی علیہ السلام کی اقتدا کرتا ہے وہ ہدایت یافتہ ہے ۔اور اس کی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:” اللہم ادرلحق مع علی حیث دار“ اے اللہ حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑے [28] قابل توجہ ہے یہ حدیث جو یہ کہہ رہی ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات حق کا مرکز ہے ۔
پیمان برا دری :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے ایک مشہور گروہ نے اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے :” آخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین اصحاب فاخی بین ابی بکر و عمر، وفالان و فلان ، فجاء علی رضی اللہ عنہ فقال آخیت بین اصحابک و لم تواخ بینی وبین احد؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انت اخی فی الدنیا والآخرة “
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کے درمیان صیغہ اخوت جاری کیا ،ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایا اور اسی طرح سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔اسی وقت حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی آپ نے سب کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کردیا لیکن مجھے کسی
کا بھائی نہیں بنایا ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” آپ دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہیں “
اسی سے ملتا جلتا مضمون اہل سنت کی کتابوں میں ۴۹ جگہوں پر ذکر ہوا ہے۔ [29]
کیا حضرت علی علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیا ن بھائ کا رشتہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ امت میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں؟ کیا افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کے پاس جانا چاہئے؟
نجات کا تنہا ذریعہ :

ابوذر نے خانہ کعبہ کے در کو پکڑ کر کہا کہ جو مجھے جانتا ہے، وہ تو جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں ابوذر ہوں، میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا :
” مثل اہلبیتی فیکم مصل سفینة نوح، من رکبہا نجیٰ ومن تخلف عنہا غرق “
تمھارے درمیان میرے اہلبیت ﷼ کی مثال کشتی نوح جیسی ہے، جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائ اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا۔ [30]
جس دن توفان نوح نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا تھا، اس دن نوح علیہ السلام کی کشتی کے علاوہ نجات کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا ۔یہاںتک کہ وہ اونچا پہاڑبھی
،جس کی چوٹی پر نوح علیہ السلام کا بیٹا بیٹھا ہواتھا نجات نہ دے سکا۔
کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ،ان کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے دامن سے وابستہ ہونے کے علاوہ نجات کا کوئی دوسرا راستہ ہے؟

________________________________________
[1] یہ جگہ احرام کے میقات کی ہے اور ماضی میں یہاں سے عراق،مصر اور مدینہ کے راستے جدا ہو جاتے تھے۔
[2] رابغ اب بھی مکہ اور مدینہ کے بیچ میں واقع ہے۔
[3] سورہ مائدہ آیہ/ ۶۷
[4] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان کے لئے اس جملے کو تین بار کہا تاکہ بعد میں کوئی مغالطہ نہ ہو۔

[5] یہ پوری حدیث غدیر یا فقط اس کا پہلا حصہ یا فقط دوسرا حصہ ان مسندوں میں آیا ہے ۔ (الف)مسند احمد ابن حنبل ص/ ۲۵۶( ب) تاریخ دمشق ج/ ۴۲ ص/ ۲۰۷ ، ۲۰۸ ، ۴۴۸ ( ج)خصائص نسائی ص/ ۱۸۱ ( د)المجمل کبیر ج/ ۱۷ ص/ ۳۹ ( ہ) سنن ترمذی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( و) المستدرک الصحیحین ج/ ۱۳ ۲ ص/ ۱۳۵ ( ز) المعجم الاوسط ج/ ۶ ص/ ۹۵ ( ح) مسند ابی یعلی ج/ ۱ ص / ۲۸۰ ،المحاسن والمساوی ص/ ۴۱( ط)مناقب خوارزمی ص/ ۱۰۴ ،اور دیگر کتب۔
[6] اس خطبہ کو اہل سنت کے بہت سے علماء نے اپنی کتابوںمیں ذکرکیا ہے ۔جیسے (الف) مسند احمد ج/ ۱ ، ص/ ۸۴ ، ۸۸ ، ۱۱۸ ، ۱۱۹ ، ۱۵۲ ، ۳۳۲ ، ۲۸۱ ، ۳۳۱ ،اور ۳۷۰( ب) سنن ابن ماجہ ج/ ۱ ،ص/ ۵۵ ، ۵۸ ( ج) المستدرک الصحیحین نیشاپوری ج/ ۳ ص/ ۱۱۸ ، ۶۱۳( ج) سنن ترمزی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( د) فتح الباری ج/ ۷۹ ص/ ۷۴ ( ہ) تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۸ ص/ ۲۹۰ ( و) تاریخ خلفاء،سیوطی/ ۱۱۴ ،اور دیگر کتب۔

[7] سورہ مائدہ آیہ/ ۳ ، ۶۷
[8] وفایة الآیان ۶۰/۱
[9] وفایة الآیان ج/ ۲ ص/ ۲۲۳
[10] ترجمہ آثارالبقایہ ص/ ۳۹۵ ،الغدیر/ ۱ ،ص/ ۲۶۷
[11] ثمار القبول اعیان/ ۱۱
[12] عمر بن خطاب کی مبارک بادی کا واقعہ اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں ذکر ہوا ہے ۔ ان میں سے خاص خاص یہ ہیں (الف) مسند ابن حنبل ج/ ۶ ،ص/ ۱۰۴ ( ب) البدایہ ونہایہ ج/ ۵ ص/ ۲۰۹ ( ج)الفصول المہمہ ابن صباغ ص/ ۴۰ ( د)فرائد السمطین ،ج/ ۱ ،/ ۷۱ ،اسی طرح ابوبکر ،عمر،عثمان ،طلحہ و زبیر کی مبارکبادی کا ماجرا بھی بہت سی دوسر ی کتابوں میں بیان ہوا ہے جیسے مناقب علی بن ابی طالب ،تالیف :احمدبن محمد طبری ،الغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰
[13] اس اہم سند کا ذکر دوسری جگہ پر کریں گے
[14] سندوں کا یہ مجموعہ الغدیر کی پہلی جلد میں موجود ہے جو اہل سنت کی مشہور کتابوں سے جمع کیا گیا ہے ۔
[15] سورہٴ مائدہ آیہ/ ۳
[16] حسان کے اشعار بہت سی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :مناقب خوارزمی ،ص/ ۱۳۵ ،مقتل الحسین خوارزمی ،ج/ ۱ ،ص/ ۴۷ ،فرائد السمطین ج/ ۱ ،ص/ ۷۳ و ۷۴ ،النور المشتعل ،ص/ ۵۶ ،المناقب کوثر ج/ ۱ ،ص/ ۱۱۸ و ۳۶۲
[17] یہ احتجاج جس کو اصطلاح میں” مناشدہ “کہا جاتا ہے حسب ذیل کتابوں میں بیان ہوا ہے : مناقب اخطب خوارزمی حنفی ص/ ۲۱۷ ،فرائد السمطین حموینی باب/ ۵۸ ،الدر النظیم ابن حاتم شامی ،وصواعق المحرقہ ابن حجر عسقلانی ص/ ۷۵ ، امالی بن عقدہ ص/ ۷ و ۲۱۲ ، شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج/ ۲ ص/ ۶۱ ، الاستیعاب ابن عبد البر ج/ ۳ ،ص/ ۳۵ ،تفسیر طبری ج/ ۳ ص/ ۴۱۸ ،سورہ مائدہ کی ۵۵ آیہ کے تحت

[18] فرائد السمطین سمط اول باب / ۵۸ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج/ ۱ ص/ ۳۶۲ ،اسد الغابہ ج/ ۳ ۲ ص/ ۳۰۷ وج/ ۵ ص/ ۲۰۵ ،الاصابہ ابن حجر عسقلانی ج/ ۲ ص/ ۴۰۸ و ج/ ۴ ص/ ۸۰ ،مسند احمد ج/ ۱ ص/ ۸۴ و ۸۸ ،البدایہ والنہایہ ابن کثیر شامی ج/ ۵ ص/ ۲۱۰ و ج/ ۷ ص / ۳۴۸ ، مجمع الزوائد ہیتمی ج/ ۹ ص/ ۱۰۶ ، ذخائر العقبیٰ ص/ ۶۷ ،(الغدیر ج/ ۱ ص/ ۱۶۳ و ۱۶۴ )
[19] اسنی المطالب شمس الدین شافعی طبق نقل سخاوی فی الضوء اللامع ج/ ۹ ص/ ۲۵۶ ،البد رالطالع شوکانی ج/ ۲ ص/ ۲۹۷ ، شرح نہج البلاغہ اب ابی الحدید ج/ ۲ ص/ ۲۷۳ ، مناقب علامہ حنفی ص/ ۱۳۰ ،بلاغات النساء ص/ ۷۲ ،العقد الفرید ج/ ۱ ص/ ۱۶۲ ، صبح الاعشیٰ ج/ ۱ ص/ ۲۶۹ ،مروج الذہب ابن مسعود شافعی ج/ ۲ ص/ ۴۹ ، ینابیع المودة ص/ ۴۸۶
[20] ان اشعار کا حوالہ پہلے دیا جا چکا ہے
[21] مرحوم علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی دوسری جلد میں صفحہ نمبر ۲۵ سے ۳۰ پر اس شعر کو دوسرے اشعار کے ساتھ ۱۱/ شیعہ علماء اور ۲۶ / سنی علماء کے حوالہ سے نقل کیا ہے
[22] الست اولیٰ بکم من انفسکم“ اس جملہ کو علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی پہلی جلد میں صفحہ نمبر ۳۷۱ / پر عالم اسلام کے ۶۴ / محدثین ومورخین سے نقل کیا ہے ۔
[23] الغدیر ج/ ۱ ،ص/ ۲۶ ، ۲۷ ، ۳۰ ، ۳۲ ، ۳۳۳،۳۴ ، ۳۶،۴۷ اور ۲۷۶ پر اس مطلب کو اہل سنت کی کتابوں سے نقل کیا ہے جیسے صحیح ترمذی ج/ ۲ ص/ ۲۹۸ ، الفصول المہمہ ابن صباغ ص/ ۲۵ ،المناقب الثلاثہ حافظ ابن فتوح / ۱۹ ،البدایہ والنہایہ ابن کثیر ج/ ۵ ص/ ۲۰۹ و ج/ ۷ ص/ ۳۴۸ ،الصواعق المحرقہ ص/ ۲۵ ،مجمع الزوائد ہیتمی ج/ ۹ ص/ ۱۶۵
[24] مرحوم علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ۴۳ ، ۱۶۵ ، ۲۳۱ ، ۲۳۲ ، ۲۳۵ ، پر حدیث کے اس حصہ کا حوالہ ابن جریر کی طبری کی کتاب الولایة ص/ ۳۱۰ ، تفسیر ابن کثیر ج/ ۲ ص/ ۱۴ ،تفسیر الدرالمنثور ج/ ۲ ص/ ۲۵۹ ،الاتقان ج/ ۱ ص/ ۳۱ ،مفتاح النجاح بدخشی،ص/ ۲۲۰ ،ما نزل من القرآن فی علی ،ابونعیم اصفہانی تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۴ ص/ ۲۹۰ ،مناقب خوارزمی ص/ ۸۰ ،الخصائص العلویہ ابو الفتح نطنزی ص/ ۴۳ ، تذکرہ سبط بن جوزی ص/ ۱۸ ،فرائد السمطین باب/ ۱۲ سے دیا ہے ۔
[25] شیخین کی تہنیت کے اسناد کو الغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰ ، ۲۸۳ پر دیکھیں

[26] سورہ حجرات آیہ/ ۱۰
[27] اس حدیث کو محمد بن ابی بکر ، ابوذر و ابوسعید خدری و دیگر حضرات نے پیغمبر سے نقل کیا ہے (الغدیر جب ۳ )
[28] تفسیر کبیر ج/ ۱ ص/ ۲۰۵
[29] علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی تیسری جلد میںان پچاس کی پچاس حدیثوںکا ذکر ان کے حوالوں کے ساتھ کیا ہے۔
[30] مستد رک حاکم ج/ ۲ ص / ۱۵۰ مطبع حیدر آباد،اس کے علاوہ اہل سنت کی کم سے کم ۳۰ مشہور کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیاگیا ہے۔

Monday, 21 September 2015

امام محمد باقر علیہ السلام

محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب "امام باقر(ع)" کے نام سے معروف ہیں اور شیعیان آل رسول(ص) کے پانچویں امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت 19 برس تھی۔ واقعہ عاشورا کے موقع پر آپ طفولیت کے عہد میں تھے۔[1] امام محمد باقر(ع) کے زمانے میں تشیُّع کے فروغ کے لئے معرض وجود میں آنے والے مناسب تاریخی حالات کو دیکھتے ہوئے آپ نے عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے عروج تک پہنچایا۔ آپ کا مدفن مدینہ میں ہے۔[2]
اکابرین اہل سنت نے امام باقر(ع) کی علمی اور دینی شہرت کی شہادت دی ہے۔ ابن حجر ہیتمی کہتا ہے:
ابو جعفر محمد باقر نے علوم کے پوشیدہ خزانوں، احکام کے حقائق اور حکمتوں اور لطائف کو آشکار کردیا۔ آپ نے اپنی عمر اللہ کی طاعت میں گذار دی اور عرفاء کے مقامات میں اس مرتبے تک پہنچ گئے تھے کہ بیان کرنے والوں کی زبانیں اس کی وضآحت سے قاصر ہیں اور آپ سے سلوک اور معارف میں کثیر اقوال نقل ہوئے ہیں۔[3]

فہرست

نسب، کنیت اور القاب

محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب المعروف بہ امام باقر(ع) شیعیان آل رسول(ص) کے پانچویں امام، چوتھے امام امام سجاد، زین العابدین علیہ السلام کے فرزند ہیں؛ آپ کی والدہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ بنت الحسن ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: كانت صديقة لَم تُدرَك في آل الحسن امراءةٌ مثلها۔ ترجمہ: [[میری دادی فاطمہ بنت حسن) وہ سچی اور پاکیزہ خاتون ہیں جن کی مانند خاتون آل حسن میں نہيں ملتی"۔ "۔[4]
امام باقر(ع) پہلے ہاشمی ہیں جنہوں نے ہاشمی، علوی اور فاطمی ماں باپ سے جنم لیا۔ یا یوں کہئے یا پہلے علوی اور فاطمی ہیں جن کے والدین دونوں علوی اور فاطمی ہیں۔[5]
آپ کے القاب میں شاکر، ہادی، اور باقر مشہور ہیں جبکہ آپ کا مشہور ترین لقب باقر ہے۔ باقر کے معنی "علم و دانش کا سینہ چاک کرکے اس کے راز و رمز تک پہنچنے والا (شکافتہ کرنے والا)" کے ہیں۔ یعقوبی رقمطراز ہے: آپ کو اس سبب سے باقر کا نام دیا گیا کہ آپ نے علم کو شکافتہ کیا۔[6] آپ کی مشہور کنیت "ابو جعفر" ہے۔[7] حدیث کے منابع میں آپ کو غالبا ابو جعفر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انگشتریوں کے نقش
امام باقر علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:
رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْداً[8] اور الْقُوَّةُ لِلّهِ جَمِيعاً۔[9]

ولادت اور وفات

امام ابو جعفر محمد باقر(ع) بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے گوکہ بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت روز سہ شنبہ (منگل وار) 3 صفر المظفر ثبت کی گئی ہے۔[10]

نام

پیغمبر اسلام نے آپ کی ولادت سے دسوں برس قبل آپ کا نام محمد اور آپ کا لقب باقر مقرر کیا تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔ روایت جابر بن عبداللہ و روایات دیگر بر این نامگذاری دلالت می‌کند۔[11] علاوہ ازیں ائمہ معصومین کے اسماء گرامی کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔[12]

شہادت

امام باقر(ع) 7 ذوالحجۃ الحرام سنہ 114ہجری کو [13] رحلت کرگئے۔ امام محمد باقر(ع) کی رحلت و شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہيں۔
اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی[14] اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقر(ع) کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (امویمروانی بادشاہ) ہشام بن عبدالملک براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔[15] بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بن مروان ہے جس نے امام(ع) کو مسموم کیا۔[16] بعض روایات میں حتی زید بن حسن کو آپ کے قاتل کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امام(ع) کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛ [17] ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔[18] بہر صورت امام محمد باقر(ع) ہشام بن عبدالملک کے زمیں رحلت فرما گئے ہیں۔[19] کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امام(ع) کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔
اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقر(ع) کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقر(ع) کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز خاندان محمد(ص) کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہيں رہتی کہ ہشام بن عبدالملک امام باقر(ع) کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔
ظاہر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد سے فائدہ اٹھاتا اسی بنا پر ابراہیم بن ولید ـ جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسول(ص) کا دشمن تھا ـ کی خدمت حاصل کرتا اور ابن ولید بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کرتا جو خاندان رسول(ص) کے اندر موجود اور اس خاندان کا فرد سمجھا جاتا تھا اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقر(ع) کی زندگی کے اندرونی ماحول تک رسائی رکھتا تھا اور کوئی بھی اس کو اس رسائی سے روک نہيں سکتا تھا تاکہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عمل جامہ پہنایا جاسکے اور امام(ع) کو شہید کیا جاسکے۔
امام محمد باقر(ع) جنت البقیع میں اپنے والد کے چچا امام حسن مجتبی علیہ السلام اور والد امام زین العابدین علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔[20]

ازواج اور اولاد

تاریخی منابع میں مروی ہے کہ در منابع از ام فروه امام محمد باقر(ع) کی زوجہ اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ نیز آپ کی ایک زوجہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں جو امام(ع) کے دو فرزندوں کی ماں تھیں جبکہ آپ کے تین دوسرے فرزندوں کی ماں ایک ام ولد تھیں۔[21]
امام محمد باقر(ع) کی سات اولدیں تھیں: 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں جن کے نام کچھ یوں ہیں
جعفر بن محمد اور عبداللہ جن کی والدہ کا نام ام فروہ بنت قاسم بن محمد ہیں۔
ابراہیم بن محمد اور عبید اللہ بن محمد جن کی والدہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں؛ یہ دونوں طفولت ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
علی، زینب اور ام سلمہ، جن کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔[22]

کربلا میں موجودگی

امام محمد باقر(ع) نے طفولت کی زندگی (چار سال تک) اپنے والدین کے اور دادا (امام حسین علیہ السلام کے ساتھ گذاری۔
آپ واقعۂ عاشورا کے دوران کربلا میں موجود تھے اور آپ خود ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: "میں چار سالہ تھا جب میرے جدّ امام حسین(ع) کو قتل کیا گیا اور مجھے آپ(ع) کی شہادت بھی یاد ہے اور وہ سارے مصائب بھی جو ہم پر گذرے۔[23]

رسول خدا(ص) کا سلام

شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا:
ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہيں سلام کیا؛ انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:
تم کَوَن ہو؟ - یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے۔
میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔
کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔
پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔
اس کے بعد جابر نے کہا: بےشک رسول اللہ(ص) تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔
میں نے کہا: و علی رسول اللہ السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ؛ لیکن یہ کیسے اے جابر!
جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤ حتی کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لو جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالی اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔[24]

امامت

امام محمد بن علی بن الحسین بن علی، باقر علیہ السلام سنہ 95ہجری میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114ہجری (یا 117 یا 118 ہجری) میں ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک شیعیان آل رسول(ص) کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔

دلائل امامت

جابر بن عبداللہ سے مروی ہے: میں نے رسول اللہ(ص) سے امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد کے آئمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار حسن و حسین، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار علی بن الحسین اور ان کے بعد محمد بن علی جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور۔۔۔۔ میرے خلفاء اور آئمہ معصومین ہیں۔[25]
علاوہ ازیں رسول اللہ(ص) سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام باقر العلوم محمد بن علی الباقر علیہ السلام سمیت تمام ائمہ(ع) کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[26]
امام سجاد(ع) مکرر در مکرر لوگوں کو امام باقر(ع) کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے عمر بن علی نے اپنے والد امام زین العابدین(ع) سے دریافت کیا کہ "آپ "محمد باقر" کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجاد(ع) نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتی کہ حضرت ہمارے قائم قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔[27]
شیخ مفید رقمطراز ہیں: امام باقر(ع) فضل، علم، زہد اور جود و کرم میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مداحی کرتے تھے اور عوام و خواص آپ کا احترام کرتے نظر آتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الہی اور فنونِ اخلاق و آداب کے فروغ اور ترویج میں امام حسن علیہ السلام اورانکے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقر(ع) جتنے گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) میں نہيں چھوڑے ہیں۔ حضرت امام باقر(ع) کی خدمت میں شرف حضور حاصل کرنے والے باقی ماندۂ اصحاب رسولؐ امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہاء مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کے فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان آپ ایک ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد انشاد کیا کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزين کیا کرتے تھے۔[28]

آپ کے ہم عصر خلفاء

امام باقر(ع) کا عہد امامت پانچ اموی ـ مروانی خلفاء کا معاصر تھا:
  1. ولید بن عبدالملک (86 تا 96) ہجری
  2. سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99) ہجری
  3. عمر بن عبدالعزیز (99 تا 101) ہجری
  4. یزید بن عبدالملک (101 تا 105) ہجری
  5. هشام بن عبدالملک (105 تا 125) ہجری
آپ کے ہم عصر اموی ـ مروانی خلفاء میں ـ عمر بن عبدالعزیز کے سوا جو کسی حد تک عدل و انصاف کر راستے پر گامزن ہوا ـ باقی خلفاء عدل کی راہ پر گامزن نہین ہوئے اور ان سب نے شیعیان آل رسول(ص) سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویئے اور آتش انتقام کے شعلے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔

علمی تحریک

سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور تفسیر قرآن کے سلسلہ میں نقل حدیث کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت حضیض زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہوچکی تھی۔ اس زمانے میں اموی عمائدین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علماء میں سے شہاب زہری، مکحول، ہشام بن عروہ وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں خوارج، مرجئہ، کیسانیہ اور غالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امام باقر(ع) نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادق(ع) کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے ہاشمی اکابرین میں سر فہرست تھے اور علم دین، سنت، علوم قرآن سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسن اور امام حسین کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہيں ہوئی ہیں۔[29]
شیعہ فقہی احکام ـ اگر چہ ـ اس وقت تک صرف اذان، تقیہ، نماز میت وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقر(ع) کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک شیعیان آل رسول(ص) کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تَشَیُّع نے ـ فقہ، تفسیر اور اخلاق پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔[30]
امام باقر(ع) نے اصحاب قیاس کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا۔[31] اور دیگر منحرف اسلامی فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیت(ع) کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا: "خوارج نے اپنی جہالت کے بموجب عرصہ حیات اپنے لئے تنک کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔[32]
امام باقر(ع) کی علمی شہرت ـ نہ صرف حجاز میں بلکہ ـ حتی کہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ تشکیل دیا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔[33]
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امام(ع) کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

تفسیر

امام(ع) نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری موضوعات و مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ امام باقر(ع) نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحق ندیم نے اپنی کتاب "الفہرست" میں بھی اشارہ کیا ہے۔ [34]
امام(ع) قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ وہ محکمات کو متشابہات اور ناسخ و منسوخ سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیت(ع) کے سوا کے پاس بھی نہيں پائی جاسکتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے: کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہيں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے"۔[35]

حدیث

امام باقر(ع) نے احادیث نبوی کو خاص شکل میں توجہ اور اہمیت دی تھی حتی کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہ(ص) کی ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں؛ جیسا کہ ابان بن تغلب اور دوسرے شاگردوں نے اس عظیم ورثے میں سے بڑے مجموعے نقل کئے ہیں۔
امام(ع) نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث ہی پر اکتفا نہيں کیا بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے ادراک کا اہتمام کرنے کی پرغیب دلائی ہے۔ مثلا آپ نے فرمایا ہے:
ہمارے پیروکاروں کے مراتب کو احادیث اہل بیت نقل کرنے اور ان کی معرفت و ادراک کی سطح دیکھ کر پہچانو، اور معرفت در حقیقت روایت کو پہچاننے کا نام ہے اور یہی درایۃالحدیث ہے، اور روایت کی درایت و فہم کے ذریعے مؤمن ایمان کے اعلی درجات پر فائز ہوجاتا ہے۔[36]

کلام

امام باقر(ع) کے زمانے میں مناسب مواقع فراہم ہوئے، حکمرانوں کی طرف سے دباؤ اور نگرانی میں کمی آئی اور یوں مختلف عقائد و افکار کے ظاہر و نمایاں ہونے کے اسباب فراہم ہوئے اور یہی آزاد فضا بھی معاشرے میں انحرافی افکار کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنی۔ ان حالات میں امام(ع) کو درست اور حقیقی شیعہ عقائد کی تشریح، باطل عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ متعلقہ شبہات و اعتراضآت کا جواب بھی دینا پڑ رہا تھا؛ چنانچہ آپ(ع) ان امور کے تناظر میں ہی کلامی (و اعتقادی) مباحث کا اہتمام کرتے تھے؛ "ذات پرودگار کی حقیقت کے ادراک سے عقل انسانی کی عاجزی" [37] اور "واجب الوجود کی ازلیت"[38] وغیرہ ان ہی مباحث میں سے ہیں۔
امام(ع) کی دیگر مواریث بھی ہم تک آ پہنچی ہیں جیسے فقہی میراث[39] اور تاریخی میراث [40] وغیرہ۔

امام(ع) کے مناظرات

امام باقر(ع) کی علمی سرگرمیون میں مختلف موضوعات پر مختلف افراد کے ساتھ مناظرات بھی شامل تھے۔ آپ کے بعض مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:

اسرائیلیات کے خلاف جدوجہد

اس زمانے میں اسلامی معاشرے کے اندر سرگرم اور معاشرتی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ یہودیوں کا گروہ تھا۔ بعض یہودی احبار جو بظاہر مسلمان ہوگئے تھے اور بعض وہ جو اپنے دین پر ثابت قدم تھے، اسلامی معاشروں میں پھیل گئے تھے اور مسلمانوں کے ایک سادہ لوح طبقے کی علمی مرجعیت کے حامل تھے۔ یہود اور اسلامی معاشرے میں ان کے القائات اور تبلیغات کے خلاف علمی جدوجہد اور انبیاء کے بارے میں یہودیوں کی وضع کردہ جھوٹی حدیثوں اور انبیاء کا چہرہ مخدوش کرنے والے مسائل کی تردید امام محمد باقر(ع) کی علمی تحریک میں خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہاں ہم بعض نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
زرارہ نقل کرتے ہیں: میں امام باقر(ع) کی خدمت میں بیٹھا تھا اور امام(ع) نے، جو کعبہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے تھے، کہا: "بیت اللہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے"۔ اسی حال میں عاصم بن عمر نامی شخص بھی امام(ع) کے پاس آیا اور کہا: "کعب الاحبار کہتا ہے: إنّ الكعبة تَسْجُدُ لبیت المقدس فی كلِّ غَداة (ترجمہ: "کعبہ ہر صبح بیت المقدس کی طرف سجدہ کرتا ہے"۔
امام نے فرمایا: کعب الاحبار کے اس قول کے بارے میں تمہاری اپنی رائے کیا ہے؟
عاصم نے کہا: کعب کی بات صحیح ہے۔
امام باقر(ع) نے فرمایا: ۔"كذبتَ و كذبَ كعب الأحبار معك"۔ (ترجمہ: تم بھی جھوٹ بول رہے ہو اور کعب الاحبار بھی جھوٹ بول رہا ہے)۔ اس کے بعد امام(ع) شدید غضب کی حالت میں فرمایا: ۔"ما خَلَقَ اللهُ عَزَّوَجلَّ بُقْعَةً فِى الاَرْضِ اَحَبَّ اِلَیْهِ مِنْها۔۔۔۔ (ترجمہ: خداوند متعال نے زمین پر کوئی بھی بقعہ (یعنی ممتاز قطعۂ ارضی) پیدا نہیں کیا جو اس کے نزدیک اس کعبہ سے زیادہ محبوب ہو)۔[41]

اصحاب اور شاگرد

امام محمد باقر(ع) کے زمانے میں معاشرے کے سیاسی حالات کچھ اس طرح سے بدل گئے کہ آپ کو ایک عظيم علمی مجمع تشکیل دینے کا موقع میسر آیا اور آپ نے شریعت کی اقدار کے پابند بےشمار عالم و دانشمند افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔
اسی بنا پر جب ہم صدر اول کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں امام باقر(ع) کی علمی حیات میں آپ کے بہت سے شاگردوں اور عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات نظر آتی ہیں۔
اس کے باوجود یہ تصور کرنا درست نہیں ہے کہ امام محمد باقر(ع) کو ان رکاوٹوں اور ممانعتوں سے آسودہ خاطر تھے جو حکمرانوں کی طرف سے اہل بیت(ع) پر مسلط کی جاتی رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام باقر(ع) کی زندگی کا ماحول شدت سے تقیہ کا ماحول تھا۔ کیونکہ غیرصالح حکومتوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی معاشرتی صورت حال میں تقیہ ترک کرنا علمی فعالیت سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور اور دین کے اصولی معارف و تعلیمات کی ترویج سے دور رہنے، کے مترادف تھا۔
زمانے کے حالات نے امام باقر(ع) نیز امام صادق(ع) کو مناسب امکان فراہم کیا جو دوسرے ائمہ طاہرین(ع) کو فراہم نہیں ہوا۔ یہ مناسب حالات اموی حکومت کی بنیادیں سست ہونے کے بموجب معرض وجود میں آئے تھے۔ اس زمانے کے سیاسی نظام کا اندرونی بحران حکمرانوں کو سابقہ حکمرانوں کی طرح خاندان رسالت پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گوشہ نشینی پر مجبور کرنے کا امکان فراہم نہ تھا۔ ان مناسب حالات میں امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) کو زیادہ سے زيادہ فقہی، تفسیری اور اخلاقی آراء فقہ و حدیث کی کتب میں اپنے نفیس اور عمدہ ورثے کے طور پر چھوڑنے کا موقع ملا۔
ایسے ہی حالات میں محمد بن مسلم امام محمد باقر(ع) سے 30ہزار حدیثیں[42] نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور جابر جعفی جیسی شخصیت نے 70ہزار حدیثیں نقل کیں۔[43]
شیعہ علماء کے نزدیک اسلام کے صدر اول کے فقیہ ترین فقہاء چھ افراد تھے اور وہ سب امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) کے اصحاب میں سے تھے؛ ان فقہاء کے نام کچھ یوں ہيں:
  1. زرارة بن اعین،
  2. معروف بن خربوذ مکی،
  3. ابو بصیر اسدی
  4. فضیل بن یسار،
  5. محمد بن مسلم طائفی اور
  6. برید بن معاویة عجلی۔[44]
شیخ طوسی نے اپنی کتاب اختیار معرفۃ الرجال میں تحریر کیا ہے کہ امام باقر(ع) کے ان شاگردوں کی تعداد 462 تھی جنہوں نے آپ سے حدیث نقل کی ہے۔ آپ کے ان شاگردوں میں مرد اور خواتین شامل ہیں۔
امام محمد باقر(ع) کے بعض اصحاب اور شاگردوں کی وثاقت اور اعتبار پر امامیہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے اور بعض دیگر کو اپنے گہرے شیعہ رجحانات کی بنا پر اہل سنت کے رجال میں جگہ نہيں دی گئی ہے بلکہ صرف امامیہ کے نزدیک قابل اعتماد اور ثقہ اور معتبر ہیں۔

امام باقر(ع) علماء اور دانشوروں کی نگاہ میں

امام محمد باقر(ع) کی شخصیت نہ صرف اہل تشیع کی نظر میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھی بےمثل اور منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ ذیل میں بعض نمونے پیش کئے جاتے ہیں:
ابن حجر الهيتمي رقمطراز ہے: ابوجعفر محمد باقر،[45] نے اس قدر علوم کے پوشیدہ خزانے، احکام کے حقائق اور حکمتوں و لطائف کو آشکار کیا ہے کہ آپ کا یہ کردار سوائے بےبصیرت اور بد سگال عناصر کے، کسی پر بھی پوشیدہ نہيں رہا ہے اسی بنا پر آپ کو "باقر العلم" (علوم کو شقّ و شکافتہ والا)، علوم کو جمع کرنے والا اور علم و دانش کا پرچم بلند کرنے والا، کہا گیا ہے۔ آپ نے اپنی عمر طاعت رب میں گذاری اور عارفین کے مقامات و مراتب میں اس مقام پر فائز ہوئے جس کی توصیف سے بولنے والوں کی زبان قاصر ہے۔ آپ سے سلوک اور معارف میں بہت سے کلمات نقل ہوئے ہیں۔[46]
عبداللہ بن عطا ـ عہد باقری کی نمایاں علمی شخصیت سمجھا جاتا تھا ـ کا کہنا ہے: میں نے کہیں بھی علماء کو اس قدر "چھوٹا" نہيں پایا جتنا کہ میں نے انہيں ابو جعفر [امام باقر(ع)] کی بارگاہ میں "چھوٹا" پایا۔[47]
الذہبی امام باقر(ع) کے بارے میں رقمطراز ہے: ابوجعفر(ع) ان شخصیات میں ہے جنہوں نے علم و عمل، سیادت [آقائی]] اور شرف نیز وثاقت و متانت کو اپنی ذات میں یکجا کر دیا تھا اور خلافت کی اہلیت رکھتے تھے۔[48]

حوالہ جات


  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289۔

  • کلینی، کافی، ج1، ص469 و شیخ مفید، الارشاد، ص508۔

  • ابن حجر، الصواعق المحرقه، ص201۔

  • شیخ مفید، الارشاد، ص508۔ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار ج 46 ص215۔

  • شیخ مفید، همان، ص508۔

  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289۔

  • طبری، دلائل الامامۃ، ص216۔

  • پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ: مجلسی، بحارالانوا، ج46، ص345۔

  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الأئمة، ج2 ص133۔

  • مجلسی، بحار، ج46، ص212۔

  • کفایة الاثر، صص144-145۔

  • رجوع کریں، یہی مقالے میں دلائل امامت کے پاورقی حاشیہ نمبر 24۔

  • فرق الشیعۃ 61؛ اعلام الوری میں امین الاسلام طبرسی نے لکھا ہے کہ کہ آپ ربیع الاول کے مہینے میں شہید ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: ص259۔

  • حدیث و روایت سے متعلق مباحث کو روائی کہا جاتا ہے۔

  • مصباح کفعمی، 691۔

  • دلائل الامامة، ص216؛ مناقب ابن شهر آشوب ج4، ص228۔

  • علامہ مجلسی کی روایت کے مطابق امام صادق(ع) نے فرمایا: زید بن حسن نے امام حسین(ع) کا ساتھ نہیں دیا اور عبداللہ بن زبیر کے ساتھ بیعت کی۔ دیکھئے: بحار الأنوارج 47 ص294۔ اس نے میرے والد امام محمد باقر(ع) کے ساتھ امامت کے مسئلے پر اختلاف کیا اور جب امام باقر(ع) نے اس کو معجزات دکھا کر اپنی حقانیت کے عملی ثبوت دیديئے تو اس نے خوفزدہ ہوکر جھگڑا جاری نہ رکھنے کا وعدہ کیا مگر وہيں سے ہشام بن عبدالملک کے پاس پہنچا؛ اور امام محمد باقر(ع) کو جادوگر اور ساحر قرار دے کر کہا کہ انہیں آزاد مت چھوڑنا۔ زید بن حسن اور ہشام نے مل کر امام(ع) کو شہید کرنے کی سازش پر طویل غور و خوض کیا۔ بالآخر زید شام سے واپس آیا اور امام(ع) کو ایک زين کا تحفہ دے دی۔ امام(ع) نے فرمایا: وائے ہو تم پر اے زید، میں اس درخت کو بھی جانتا ہوں جس کی لکڑی اس زین میں استعمال ہوئی ہے لیکن وائے ہے اس شخص پر جو شر انگیزي کا سبب ہے۔ زین گھوڑے پر رکھی گئی اور یہی زین امام(ع) کی شہادت کا سبب بنی۔ دیکھئے: تھی میرے والد گھوڑے پر سوار ہوئے اور جب اترے تو آپ کے پاؤں سوجھ گئے تھے چنانچہ آپ نے فرمایا: میرے لئے کفن تیار کرو۔ بحارالانوار، ج46 ص329۔ چنانچہ یہی زین امام(ع) کی شہادت کا سبب بنی۔ شف الغمه: 137/2۔ گوکہ بعض روایات کے مطابق ابراہیم بن الولید بن عبدالملک بن مروان نے ہی آپ کو مسموم کرکے شہید کردیا۔

  • فرق الشیعۃ ص 61۔

  • تاریخ یعقوبی، ج2، ص289، مروج الذہب 3/219،

  • فرق الشیعة 61، اصول کافی 2/372، ارشاد مفید 2/156، دلائل الامامة ص216، اعلام الوری 259، کشف الغمة 2/327، تذکرة الخواص 306، مصباح کفعمی 691،

  • شیخ مفید، همان، 524۔

  • شیخ مفید، وہی ماخذ، امین الاسلام طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی، ص۔375

  • یعقوبی، وہی ماخذ ج2، ص289۔

  • المفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ق، ص382؛ نیز رجوع کریں: ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج54، ص276۔

  • کفایة الاثر، صص144-145۔

  • مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب هشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم) نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ بحارالأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الهداة ج 3،‌ ص 123؛ المناقب ابن شهر آشوب، ج1، ص 283۔ سورہ علی(ع) سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 (انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا) نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحارالأنوار ج36 ص337، کفایةالأثر ص 157۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ(ص) کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ(ص) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔

  • کفایة الاثر، ص237۔

  • مفید، الارشاد، ص509۔

  • شیخ مفید، وہی ماخذ۔ 507۔

  • ضحی الاسلام، ج1، ص386؛ دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ج1، صص57_56 بحوالہ از جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ص295۔

  • شیخ حر عاملی، وسائل الشیعه، ج18، ص39۔

  • شیخ طوسی، التهذیب، ج1، ص241؛ به نقل از جعفریان، وہی ماخذ، ص299۔

  • کلینی، وہی، ج6، ص266 و مجلسی، بحارالانوار، ج46، ص357۔

  • ابن ندیم، الفهرست، ص59 و شریف القرشی، باقر، حیاة الامام المحمد الباقر، ج1، ص174۔

  • گروه مولفان، پیشوایان هدایت، ص320۔

  • شریف القرشی، باقر، همان، ص140و141۔

  • ۔کلینی، وہی ماخذ، ج1، ص82۔

  • کلینی، وہی ماخذ ج1، صص88-89۔

  • مؤلفین کی ایک جماعت، پیشوایان ہدایت ج7، ص341 تا 347۔

  • مؤلفین کی ایک جماعت، پیشوایان هدایت ج7 ص330تا 334۔

  • مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص354۔

  • مجلسی، بحار ج11، ص83

  • علی محمد علی دخیل، ائمتنا ج1، ص347

  • مناقب، ابن شهر آشوب، ج4، ص211

  • باقرکے لغوی معنی "شقّ" کرنے اور "کھولنے" "وسیع" کرنے نیز "چیرنے" اور "پھاڑنے" [اور تشریح کرنے] والے کے ہیں، لوئیس معلوف، المنجد في اللغۃ، الطبعۃ ثالث وثلاثون، مطبوعہ دارالمشرق بیروت۔ لبنان 1986۔

  • ابن حجر، الصواعق المحرقه، ص201۔

  • سبط ابن الجوزی، تذکرة الخواص، ص337؛ علی بن عیسی الاربلی، کشف الغمة، ج2، ص329۔

    1. ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ج4، ص402۔


    مآخذ

    • ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1402ه‍۔ق/1982عیسوی۔
    • ابن ندیم، محمد، کتاب الفہرست، ترجمہ محمدرضا تجدد، تہران، چاپخانہ سپہر، چاپ سوم، 1366 ہ‍جری شمسی۔
    • سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، طهران، مکتبة نینوی الحدیثه، ناصر خسرو۔
    • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، تحقیق: محمد محیی الدین عبدالحمید۔
    • طبرسی، امین الاسلام، اعلام الوری باعلام الهدی، ترجمه عزیزاللہ عطاردی، تهران، کتابفروشی اسلامیه، دوم، 1377 ہ‍جری شمسی۔
    • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، قم، موسسة البعثة، الاولی، 1413ہ‍جری۔
    • مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403 ہ‍جری۔
    • قمی رازی، ابی القاسم علی بن محمد، کفایة الاثر فی النص علی الائمة اثنی عشر، قم، مطبعة الخیام، 1401 ہ‍جری۔
    • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعه، بیروت، دار الاضواء، 1404 ہ‍جری۔
    • شهرآشوب، ابی جعفر محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، انتشارات ذوی القربی، الاولی، 1421 ه‍۔ق/1379 ہ‍جری شمسی۔
    • ابن حجر هیتمی، احمد، الصواعق المحرقه، مکتبة القاهره، بی‌تا۔
    • طبرسی، ابی منصور احمد بن علی، الاحتجاج، مشهد، نشر المصطفی، 1403 ہ‍جری۔
    • گروه مولفان، پیشوایان هدایت شکافنده علوم حضرت امام باقر(ع)، مترجم: کاظم حاتمی طبری، قم، مجمع جهانی اهل بیت، اول، 1385 ہ‍جری شمسی۔
    • الکفعمی، تقی الدین ابراهیم بن علی، المصباح، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، الاولی، 1414 ه‍۔ق/1994م
    • شریف القرشی، باقر، حیاة الامام محمد الباقر، قم، دار الکتب العلمیة، اسماعیلیان نجفی، 1397 ہ‍جری۔
    • الکلینی، ابی جعفر محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی اکبرغفاری، تهران، دارالکتب الاسلامیة، الثالثة، 1388ہ‍جری۔
    • دخیل، علی محمد علی، ائمتنا سیرة الائمة الاثنی عشر، قم، موسسة دار الکتب الاسلامی، الثالثة، 1429ق/2008عیسوی۔
    • طوسی، ابی جعفر محمد بن الحسن، اختیار معرفة الرجال، تصحیح حسن المصطفوی، دانشگاه مشهد، 1348 ہ‍جری شمسی۔
    • عاملی، حر، وسائل الشیعیه الی تحصیل مسائل الشریعة، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
    • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، ترجمه محمد باقر ساعدی، تهران، انتشارات اسلامیه، 1380 ہ‍جری شمسی۔
    • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ترجمه محمدابراهیم آیتی، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، 1378 ہ‍جری شمسی ۔